اسرائیل: مشرق وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو 'جوہری ابہام' کی پالیسی سے فائدہ اٹھا رہی ہے - Israel: The Only Nuclear Power in the Middle East Benefiting from Its Policy of 'Nuclear Ambiguity'
It is no longer a secret that Israel has possessed nuclear weapons since the 1960s, yet it has never officially confirmed or denied this. Israel follows a unique approach called "nuclear ambiguity" — a strategy of neither acknowledging nor rejecting its nuclear capability.
Last week, Israel launched a military strike on Iran, accusing it of being on the brink of developing nuclear weapons. In retaliation, Iran fired ballistic missiles at Israel, escalating tensions to a state of open conflict.
According to Dr. Xavier Bohigas, a researcher at the Delas Center for Peace Studies, "Israel is currently the only country in the Middle East known to possess nuclear weapons."
The International Atomic Energy Agency (IAEA) reports that Iran has enriched uranium up to 60%. However, as Dr. Bohigas notes, "To build an atomic bomb, uranium needs to be enriched beyond 90%."
Moreover, Israel has never signed the Nuclear Non-Proliferation Treaty (NPT), unlike countries such as Iran, the United States, and Russia. This strategic ambiguity has allowed Israel to maintain its nuclear edge without international legal constraints, gaining both military and diplomatic leverage in the region.
یہ بات اب کسی راز کی محتاج نہیں کہ اسرائیل کے پاس 1960 کی دہائی سے جوہری ہتھیار موجود ہیں، لیکن اس نے آج تک کبھی سرکاری سطح پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ اسرائیل نے ایک ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے جسے "جوہری ابہام" کہا جاتا ہے — یعنی نہ تسلیم کرنا، نہ انکار کرنا۔
حال ہی میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ اس کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغے، جس کے بعد دونوں ممالک کھلی دشمنی کی حالت میں ہیں۔
ڈیلاس سینٹر فار پیس اسٹڈیز کے تجزیہ کار ڈاکٹر زیویئر بوہیگاس کے مطابق، "فی الوقت اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جو جوہری ہتھیار رکھتا ہے۔"
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق، ایران نے اپنے یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر لیا ہے، جبکہ ایٹمی بم تیار کرنے کے لیے یورینیم کو کم از کم 90 فیصد تک افزودہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، اسرائیل نے آج تک جوہری عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدے (NPT) پر دستخط نہیں کیے، جبکہ ایران، امریکہ اور روس جیسے ممالک اس معاہدے کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی اس دوغلی حکمت عملی نے اسے سیاسی، فوجی اور سفارتی طور پر کئی فائدے پہنچائے ہیں۔
Comments
Post a Comment